by Yafiah Hafeez
میری ننّا کہتی تھیں یافیعہ کا اندازِ بیان بہت معصومانہ اور فطری ہے جو اس پوری کتاب میں جابجا واضح نظر آتا ہے؛ اور اسی اندازِ بیان سے انہوں نے حقیقت نگاری کی ہے جس سے ان کی تحریر میں چارچاند لگ جاتے ہیں۔ یہ اس کتاب میں دلچسپی قائم رکھنے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ اسی لیے ہم جیسے ہی کتاب کے پہلے مضمون ’’رات کو دعا کرکے سونا چاہیے‘‘ سے شروع کرتے ہیں تو اس کے مطالعے کو درمیان میں روکنا مشکل ہو جاتا ہے؛ اور آخری مضمون، جو اپنے ساتھ ایک طرح کا عہد ہے ’’تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا‘‘ پہ جاکر ختم کرتے ہیں۔ کتاب کے مضامین میں بہت تنوع ہے جو ایک وسیع مطالعے کا متقاضی ہے۔ یافیعہ اپنی تحریر سے ثابت کرتی ہیں کہ نہ صرف ان کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہے بلکہ وہ مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور ادبی معلومات کا ذخیرہ بھی رکھتی ہیں جسے انہوں نے مختلف مضامین میں انتہائی موزونیت اور مناسبت کے ساتھ بخوبی استعمال کیا ہے... اس طرح کی کتاب لکھنے کے لیے عمر کی ایک پختگی درکار ہوتی ہے۔ یافیعہ نے اپنی کم عمری کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جو قابل تعریف ہے۔ ان کی تحریر میں خیال آفرینی، کسی نتیجے پر پہنچنے کا تجسّس، باریک بینی، مثالوں میں ندرت اور موضوعات میں تنوع کے باوجود، ان میں تسلسل قائم رکھنے کی مہارت نمایاں نظر آتی ہے۔